۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا انصار حسین ترابی طاب ثراہ مبارکپوری

حوزہ/ مولانا انصار حسین ترابی طاب ثراہ کی ذات فکر و نظر، عمل و عمل، دیانت، تفقہ، تدبیر وتدبر، ایثار، خلوص کی مجموعہ تھی۔ آپ ایک بہترین استاد، مخلص داعی اور ژرف نگاہ مفکر تھے جن سے علمی، دینی اور ادبی دنیا میں رہنمائی حاصل کی جاتی تھی۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا انصار حسین ترابی طاب ثراہ کی ذات فکر و نظر، عمل و عمل، دیانت، تفقہ، تدبیر وتدبر، ایثار، خلوص کی مجموعہ تھی۔ آپ ایک بہترین استاد، مخلص داعی اور ژرف نگاہ مفکر تھے جن سے علمی، دینی اور ادبی دنیا میں رہنمائی حاصل کی جاتی تھی۔

آپ 28؍ جولائی 1963ء کو ’’ریشمی نگری‘‘المعروف سر زمین ’’مبارکپور‘‘ ، محلہ ’’ شاہ محمد‘‘ پور کے ایک معزز خانوادے میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ ’’باب العلم‘‘ مبارکپور، اعظم گڑھ سے حاصل کی۔

1974ء میں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ‘‘، لکھنو میں داخلہ لیا۔جہاں سے آپ نے صدر الافاضل کی سند حاصل کی ۔ یو پی مدرسہ بورڈ سے منشی ، مولوی ، عالم ، کامل، فاضل کی ڈگریاں امتیازی نمبرات سے حاصل کیں۔

1982ء میں مزید اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے حوزہ علمیہ قم، ایران تشریف لے گئے اور 1988ء تک حوزہ علمیہ ،قم، ایران میں زیر تعلیم رہے۔آپ نے دو مرتبہ فریضہ حج سے فیضیابي حاصل کی۔ پہلی مرتبہ 1998 میں اور دوسری مرتبہ 2017 میں اس عظیم فریضہ کو دوبارہ انجام دینے کا شرف حاصل کیا۔اس کے علاوہ ایران عراق اور شام (مقامات مقدسہ) کی زیارت کا شرف بھی آپ کو دوبار حاصل ہوا۔

آپ نے ایک فارسی کتاب کا اردو ترجمہ بھی کیا۔آپ کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ ہندی، عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ کو ان تمام زبانوں میں گفتگو کرنے پر بھی دسترس حاصل تھی۔آپ تفسیر، حدیث، فقہِ، منطق اور فلسفہ دین میں مہارت رکھتے تھے۔آپ مختلف علوم دینیہ سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔

آپ نے مختلف موضوعات پر متعدد مضامین بھی لکھے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایران سے ’’اعزامی مدرس‘‘ ہو کر ’’جامعہ مہدیہ‘‘ سیتھل، ضلع بریلی میں درس وتدریس کے لئے ہندوستان تشریف لائے اور یہیں سے اپنے تدریسی اورتبلیغی سفر کا آغاز کیا۔ جامعہ مہد یہ میں آپ کے شاگردوں میں مولانا غضنفر سیتھلی اور مولانا قمر مظفر نگری اور دیگر نے آپ سے کسب فیض کیا جس سے فکر و عمل میں آفاقیت پیدا ہوئی ۔

1990 ء میں ’’جامعہ ابو طالب سیتا پور کی بنیاد رکھی- اور اس کی تعمیر سے لیکر مکمل تعمیر تک جی جان سے کوششیں کی جس میں آپ کی جد و جہد اور بے لوث خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اسی مدرسہ میں پرنسپل کی حیثیت سے اپنے کار ہائے نمایاں کا سلسلہ جاری و ساری رکھا۔جہاں پر آپ نے بیحد جدو جہد کی اور مدرسہ کے تعلیمی نظام کو ہمالیائی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جامعہ ابوطالبؑ‘‘ میں آپ کے شاگرد آج بھی آپ کو شفیق استاد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

آپ کے شاگردوں میں مولانا وجیہ الحسن صاحب، مولانا گلزار صاحب، مولانا دلشاد صاحب، مولانا شمشاد صاحب، مولانا سالم صاحب،۔ مولانا طفیل صاحب اور دیگر علمائے کرام ہیں۔ ’’جامعہ ابوطالبؑ‘‘ میں آپ کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے آپ کی انتھک خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

1994-95 ء کے درمیان’’ شکار پور‘‘ ضلع ’’بلند شہر ‘‘میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے تشریف لے گئے اور وہاں پر 1998تک یہ الٰہی اور نو رانی فرائض انجام دینے میں مصروف عمل رہے۔

شکار پور سے اپنے والد محترم کے مسلسل اسرار کی وجہ آپ کی مبارکپور، اعظم گڑھ واپس آوری ہوئی اور آپ مدرسہ ’’باب العلم‘‘ مبارکپور اعظم گڑھ میں درس و تدریس کے فرائض میں مصروف ومشغول ہو گئے۔درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ حکمت سے بھی وابستہ رہے اور ایک بہترین حکیم کے طور پر اپنی پہچان علاقہ میں بنائی۔آپ کی حکمت میں کی گئی کاوشوں کے لیے ریکس کمپنی کی طرف سے آپ کو ایوارڈ بھی دیا گیا۔

2004 ء میں کو ڈی نار‘‘ ضلع ’’امریلی ‘‘،’’گجرات‘‘ پہنچے، جہاں پر آپ نے دو سال تک امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مذہبی امور میں بے لوث اور والہانہ خدمات انجام دیں۔اس کے بعد مہوا، ضلع بھاونگر میں ایک سال امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مذہبی خدمات انجام دیں۔

مہوا سے آپ تلاجہ ضلع بھاونگر میں آئے اور یہاں بھی دو سال تک امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مذہبی خدمات انجام دیتے رہے گجرات سے واپس آنے کے بعد آپ عیسیٰ پور، ضلع میرٹھ میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مذہبی خدمات انجام دیے۔

عیسیٰ پور سے آپ غازی آباد تشریف لے گئے اور وہاں بھی کچھ عرصے تلک آپ امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مذہبی خدمات انجام دیتے رہے۔اسی بیچ جولائی2010ء میں ’’جامعہ حامد المدارس‘‘ ،پہانی ضلع ’’ہردوئی‘‘ میں سرکاری مدرس عالیہ کے عہدے پر آپ کی تقرری ہوئی اورآخری وقت تک تعلیمی سر گرمیوں میں فعال رہے اور ساتھ ساتھ امام جمعہ و جماعت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

پہانی کے مومنین اور طلبہ آپ کو آج بھی یاد کرتے ہیں آپ کے شاگردوں میں سے ایک انقلابی شاعر عالیجناب مولانا وجیہ الحسن واقفؔ پہانوی ہیں ۔ عالیجناب واقفؔ پہانوی جامعہ ناظمیہ ، لکھنؤ سے ممتاز الافاضل ہیں ۔ آپ نے خطابت کے میدان میں انمٹ نقوش مسلسل ثبت کر رہے ہیں ،مولانا ایک اچھے اور ماہر شاعر ہیں ۔ شاعر کے میدان میں آپ نے بڑے جوہر دکھائے ہیں ۔

آپ کے والد محترم سید صغیر الحسن صغیر ؔپہانوی ہیں جن کا شمار ماہر شعرا میں ہو تا ہے آ پ کا شعر مشہور زمانہ ہوا ۔ مشہور زمانہ شعر کا جواب ہے :

شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھا دیتا ہوں
دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کے لیے

آپ کے والد محترم سید صغیر الحسن صغیر ؔپہانوی نے جواب کچھ اس طرح جواب دیئے:

شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے والے
تونے کیا دن کے اجالے میں جلائے تھے چراغ

عالیجناب مولانا وجیہہ الحسن واقفؔ پہانوی کا مشہور زمانہ شعر:

کسی امیر کی دولت سے مجھ کو کیا مطلب
میں اپنے بچے تبرک پہ پال لیتا ہوں

مولانا انصار حسین ترابی مرحوم نے مولانا وجیہ الحسن صاحب کا داخلہ 1993 میں ’’ جامعہ ابوطالبؑ ‘‘ میں کرایا اور آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا-

استاد محترم و مکرم ،عالم با عمل ، پیکر صفا ، مربی و مدرس ، خلیق و با مروت ، علم دوست ،دردمند و درد آشنا مبلغ حجۃ الاسلام و المسلمین عالی جناب مولانا انصار حسین ترابی اعلی اللہ مقامہ ایک ایسے مبلغ و مدرس تھے جو لومت لائم کی پرواہ کیے بغیر پورے جوش و خروش اور ہمت جوئی اور ہمت افزائی سے نشر واشاعت اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ میں نے(محمد رضاایلیاؔ مبارکپوری) ان سے مدرسہ ’’ باب العلم ‘‘ مبارکپور میں ’’ تبصرۃ المتعلمین ‘‘ پڑھا۔پہلے پہل خود طلبہ سے عبارت پڑھواتے تھے جب طلبہ عبارت پڑھنے میں کوئی غلطی کرتے تو فوراً نہایت شگفتگی کے ساتھ اس کی تصحیح فرماتے تھے ۔پھر عبارت کا ترجمہ اور اس کی تفصیلات نہایت ہی عمدہ طریقہ سے کرتے اور ہم سبھی کلاس دوستوں کودرس کے مطالب پوری طرح سے سمجھ میں آجاتاتھا ۔

حجۃ الاسلام ،عالیجناب مولانا انصار حسین ترابی طاب ثراہ پوری زندگی نہایت سادگی سے بسر کیا ۔ سر دو گرم زمانہ سے نہ متاثر ہوئے اور نہ ہی فرائض سے غافل رہے، جھوٹی شان و شوکت سے کو سوں دور،حقانیت سے قریب تر رہنا ہی آپ کی زندگی طرہ امتیاز تھا ،بزرگوں اور بچوں سے حفظ مراتب کے ساتھ نہایت بذلہ سنجی کے کلام کرتے تھے ان کی خاص اور اہم خصوصیت میں یہ تھی کہ وہ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے اگر آپ سے کوئی سلام کر تا تھا تو وہ نہایت بلند اور مسجع و مقفی انداز میں جواب دیتے تھے ۔ابجدی حروف کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپنے اپنے حلقۂ درس سے ہزاروں طالبینِ علوم کو سیراب کیا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا انصار حسین ترابی طاب ثراہ کی سات اولادیں ہیں۔تین بیٹے اور چار بیٹیاں اپنے فرزندوں (ڈاکٹر محمد کمیل ترابی و ڈاکٹر علی ریحان ترابی ) کے لیے ہمیشہ جی جان کو ششیں کیں ۔آپ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت ہی مشکلات کا سامنا کیا ۔ کچھ ایسی پریشانی بھی اٹھائی جو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔بچوں کی تعلیم کے لیے نہایت سنجیدہ اور حساس رہے چاہے ان کی مدرسہ کی تعلیم ہو یا عصری ۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ میرے استاد محترم عزت مآب وقار حسین صا حب جلالپوری کے کمرہ پر ( جو اس وقت مدرسہ باب العلم کے مدرس تھے ) آپ کے دونوں فرزندان ٹیوشن پڑھنے جایا کرتے تھے۔ اگر کسی دن کسی سبب سے ٹیو شن نہیں گئے تو آپ بہت سخت نا راضگی کا اظہار کرتے تھے ۔

مولانا مو صوف کی جب بھی مجھ سے ( مولانا محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری) ملاقات ہوتی وہ فرماتے کہ میرے بچوں کا خاص خیال رکھیے گا ان دونوں کے لیے کوئی مثبت راہ حل تلاش کریئے گا۔ ما شاء اللہ سے آپ کے دونوں فرزند نے مدرسہ سلطان المدارس سے صدر الافاضل اور دہلی یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی دو بیٹیاں بی۔یو۔ایم۔ایس ڈاکٹرز ہیں۔آپ کے سب سے چھوٹے فرزند فہیم حیدر ترابی بھی آج کل neet کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ آپ ہی کی وجہ سے گھر کا ماحول علمی اور ادبی رنگ سے سجتا چلا گیا۔

مولانا مو صوف مبارکپور کے شاہی و تاریخی، آثار قدیمہ اورنہایت شاندار کربلا ’’ شاہ کا پنجہ‘‘ کے سن 2000 ء سے 2022 تک متولی رہے اور تازندگی اس تعلق سے قومی، ملی اور مذہبی وراثت کے لیے ہمیشہ کو شاں رہے اور اس عزاخانہ کے مسلسل نگراں بھی رہے ۔ مبارکپور میں جب آپ تشریف فرما ہوتے تھے شہدائے کربلاؑ کے سوئم کی مجلس کو خطاب کرتے ۔

آپ نے اس میں قابل قدر اور بیش بہا امانت کو سنجوئے رکھااور حد درجہ تعاون کیا۔کربلا عزا خانہ ’’ شاہ کا پنجہ‘‘ حیدر آباد، مبارکپور ، اعظم گڑھ میں دونوں روضہ کی مرمت کرائی اور اندرون صحن اور عزا خانہ میں ماربل و ٹائلس کی تنصیب کاری ہوئی۔ 2020 میں جدید طرز پر روضہ کی گنج کاری اور سفید کاری ہوئی ۔عزا خانہ میں شیشہ کے فریم میں کئی علم کی تنصیب کاری ہوئی اور ’’شاہ کا پنجہ‘‘ کے احاطہ میں دونوں راستوں پر انٹرلاکنگ اور احاطہ کے اندونی اور بیرونی راستوں پر لائٹ کا بندوبست کیا۔

کربلا عزا خانہ ’’ شاہ کا پنجہ‘‘کتاب ’’ واقعات و حادثات مبارکپور‘‘ عالیجناب علی حسن صاحب مبارکپوری نے لکھاہے ۔ یہ کتاب زمیندار، محسن قوم اور سرمایہ افتخار مبارکپور عالیجناب شیخ گدا حسین صاحب مرحوم کے فرمائیش پر1801ء میں لکھی گئی ۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر34،’’حادثہ ہشتم ’’ جو سکھ ساہی ‘‘ میں شاہ کا پنجہ کے بارے میں اس طرح تحریر ہے۔

’’ قصبہ مبارکپور میں جانب پچھم بستی سے باہر ایک احاطہ بہت خوش قطع ہے اور اس کے اندر روضہ مبارک معروف بہ پنجہ شریف ( شاہ کا پنجہ ) واقع ہے۔ ایسی دلچسپ جگہ اس قصبہ میں دوسری نہیں ہے۔ ‘‘ (یہ کتاب میرے پاس ہے اس کو میں از سر نو ترتیب دےرہا ہوں۔محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری)

مولانا موصوف کے والد محترم عزت مآب شاعر اہل بیتؑ جناب ابو الحسن ترابی ( منیم جی)1965سے 1999 تک کربلا عزا خانہ ’’ شاہ کا پنجہ‘‘ حیدر آباد، مبارکپور ، اعظم گڑھ کے متولی رہے ۔ آپ کے والد محترم ہمیشہ فعال اور سرگرم عمل رہے ۔20؍مئی 1959سے 22؍مئی 1962تک کا زمانہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آپ اس زمانہ میں بحیثیت نظامت و منتظم رہے ۔سن 1961 میں مدرسہ باب العلم ، مبارکپور کا دستور عمل ترمیم و تنسیخ کے بعد طبع ہوا اور مدرسہ کا رجسٹریشن بھی آپ کے دور ہی میں ہوا ۔ عالیجناب ابوالحسن ترابی طاب ثراہ نے ہی انجمن انصار حسینی مبارکپور کا رجسٹریشن کرایا تھا۔

مولانا موصوف بہترین لب و لہجہ اور منفرد انداز میں مجالس خطاب کرتے تھے ۔ نہایت نرم لہجہ اور شگفتگی کے ساتھ ایک ایک بات کو واضح کرتے تھے ۔ ابجدی حروف کی ادائیگی میں تلفظ کو خاص اہمیت دیتے تھے ۔ خطابت نہایت سلیس اور مسجع و مقفع ہوتی تھی ۔اپنی مجالس میں ہمیشہ واعظ و نصیحت کرتے تھے ۔ نوجوانوں کے لیے نصیحت بھرے جملہ پر خصوصی توجہ دیتے تھے ۔ ایام عزاء میں مجالس میں پرجوش انداز میں شرکت کرتے تھے ۔ مجلس کے اختتام تک شریک رہتے تھے اور نوحہ خوانی و سینہ زنی میں جذبہ حسینی کے ساتھ پرجوش انداز میں سینہ زنی کرتے تھے۔ آپ کے انتقال سے قبل آخری چہلم کے جلوس میں آپ نے بہت ہی جو ش و خروش کے ساتھ ماتم کیا ۔ انتقال کے بعد اس چہلم کی ویڈیوز اور آپ کی مجالسِ تمام مو منین کے غمزدہ قلوب کے لیے مرہم اندمال ثابت ہوئی۔ آج بھی مومنین آپ کو دل و جان سے یاد کرتے ہیں۔آپ غریبوں اور بیواؤں کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔آپ زندگی کے آخری ایام میں بھی مذہب تشیع کے ترویج و اشاعت کے لیے سرگرداں رہے۔

مولانا انصار حسین ترابی صاحب (طاب ثراہ) ہر جمعہ کو ’’ہردوئی‘‘ سے ’’فرخ آباد‘‘ نماز جمعہ پڑھانے کے لئے جایا کرتے تھے ۔ حسب معمول نمازِ جمعہ پڑھانے کے لئے فرخ آباد تشریف لے گئے تھے اور وہاں سے واپسی میں اچانک طبیعت خراب ہونے لگی تب انہیں مقامی اسپتال میں ایڈمٹ کرایاگیا مگر خدا کو اپنی بارگاہ میں بلانا مقصود تھا ۔ رات میں تقریباً 10؍ بجے آپ کو میجر ہارٹ اٹیک آیا اور 18؍فروری 2022 کوفرخ آباد میں داعی اجل کو لبیک کہا۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.

آپ کی نماز جنازہ مولانا فیروز عباس صاحب نے پڑھائی جنازہ میں قرب و جوار اور ہر دوئی ، فرخ آباد اور لکھنؤ، دہلی، شکارپور، مرادآباد کے علما اور معزز افراد شریک ہوئے ۔ جنازہ میں بلا تفریق مذہب و ملت کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔آپ کی تدفین شیعہ عید گاہ مبارکپور میں ہوئی اور سوئم کی مجلس مولانافیروز عباس صاحب اور دسویں کی مجلس مولانا ناظم علی صاحب عمید جامعہ حیدر یہ خیرآباد اور مجلس چہلم مولانا احسان عباس صاحب اور مولانا فیروز عباس صاحب نے خطاب کیا ۔شاعر اہلبیت عالیجناب مولانا طاھر حسین صاحب خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس انداز میں رقمطراز ہیں:
عاشق حیدر کرار تھے انصار حسین
پیرو میثیم تمار تھے انصار حسین
اشک برساتے ہوئے کہتے ہیں سب رو رو کر
قوم و ملت کے طرف دار تھے انصار حسین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .